فاتحۃ الکتاب نام کا وجہ تسمیہ کیا ہے؟ |
سورۃ فاتحہ کا تیسرا نام :: فاتحۃُ القرآن(قرآن کریم کا افتتاح کرنے والا سورت)
ابو میسرہ عمرو بن شرحبیل تابعی کی مرسل روایت میں یہ نام آیا ہے،یہ روایت تفسیر روح المعانی کے حاشیہ پر ہے۔ اس نام کا ذکر جلال الدین سیوطیؒ نے بھی الاتقان میں کیا ہے۔
وجہ تسمیہ: جلال الدین سیوطیؒ الاتقان میں لکھتے ہیں کہ اس سورت کا نام فاتحۃ القرآن مروی ہے کیونکہ اس سے قرآن کریم کا افتتاح ہوتا ہے۔
سورۃ فاتحہ کا چوتھا نام: اُم الکتاب
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ اس نام میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔انس رضی اللہ عنہ ،حسن بصری،ابن سیرین اور تقی بن مخلد اس نام کے قائل نہیں او انھوں نے اس نام کو سورۃ فاتحہ کے لئے مکروہ یعنی ناپسند قرار دیا ہے، انس اور ابن سیرین کہتے ہیں کہ ام الکتاب سورۃ الرعد اور سورۃ زخرف میں لوح محفو ظ کے لئے استعمال ہواہے اور حسن بصری فرما تے ہیں کہ سورۃ اٰل عمران میں محکم آیات کے لئے امالکتاب کا لفظ استعمال ہواہے،تاہم جمہور مفسرین اس کو جائز سمجھتے ہیں۔جمہور کی دلیل یہ ہے کہ صحیح احادیث اور اٰثار میں سورت فاتحہ کا نام ام الکتاب آیا ہے،جیسے نیچے نمونہ کے طور پر چند احادیث اور اٰثار پیش کئے جاتے ہیں۔
(1) ابو سیعد خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے،رات کو ہم نے ایک قبیلہ کے پڑوس میں پڑاو کیا،ایک لونڈی آئی اور کہا کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے ڈس لیا ہے اور ہمارے قبیلہ کے لوگ موجود نہیں ہیں،کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ایک صاحب اس کے ساتھ جا نے کے لئے کھڑے ہو گئے ،ہم جانتے تھے کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتا لیکن انھوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑاتو وہ ٹھیک ہو گیا،اس نے اس کے بدلہ میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔
جب وہ جھاڑ پھونک کر واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا،کیا واقعی تم کوئی منتر جانتے تھے؟ انھو ں نے کہا ،نہیں،(میں کوئی منتر نہیں جانتا ہوں اور پھر کہا):ماَ رَقَیتُ اِلاَّ بِاُ مِّ الکِتاَبِ (میں نے تو صرف ام الکتاب پڑھ کر اس پر دم کر دی تھی) ،ہم نے کہا کہ اچھا جب تک ہم رسول اللہﷺ سے اس کے متعلق پوچھ لیں،ان بکریوں کا کوئی چرچا نہ ہو،چنانچہ ہم نے مدینہ پہنچ کر آپﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ انھوں نے اسے کوئی منتر سمجھ کر تھوڑا ہی کیا تھا،اسے تقسیم کر لو اور اس میں میرا حصہ لگانا۔(بخاری کتاب التفسیر)
اس روایت میں سورت فاتحۃ کے لئے ام الکتاب کا نام استعمال ہوا ہے۔
(2) قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی کریمﷺ ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ام الکتاب اور کوئی اور سورت پڑھتے تھے،کبھی کبھی آپﷺ آیت ہمیں سنا بھی کیا کرتے تھے،پہلی رکعت میں قراءت زیادہ طویل کرتے تھے۔(بخاری،کتاب لاذان)
(3) قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں سورت ام الکتاب یعنی فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں سورت ام الکتاب پڑھتے تھے۔کبھی کبھی ہمیں آیت سنا بھی دیا کرتے تھے (تعلیم کے لئے) اور پہلی رکعت میں قراءت دوسری رکعت سے زیادہ کر تے تھے۔عصر اور فجر کی نمازوں میں بھی یہی معمو ل تھا۔ (بخاری،کتاب لاذان)
(4) ابو ھریرہ رضی للہ عنہ نے فرمایا: ہر نماز میں تلاوت قرآن ہے اور جس نماز میں ہم کو نبیﷺ نے سنایا،ہم بھی تم کو سناتے ہیں اور جس میں ہم سے پوشیدہ رکھا یعنی آہستہ تلاوت کی ،ہم بھی تم سے پوشیدہ رکھتے ہیں،اور جس نے ام الکتاب پڑھی تو اس لئے کافی ہے اور جس نے زیادتی کی وہ افضل ہے۔(مسلم،کتاب الصلٰوۃ)
اس حدیث میں ام الکتاب نام کا ذکر ہے۔
(5) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اَلحَمدُ لِلہِ رَبِّ العٰلَمِین ام القرآن ہے اور ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے۔(ابوداود کتاب الصلٰوۃ)
اس حدیث میں چار ناموں کا ذکر ہے جن میں ایک نام ام الکتاب بھی ہے۔
(6) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الحمد للہِ رب العٰلمین (پوری سورت)،یہی ام القرآن ہے اور ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم ہے۔(ترمذی)
اس حدیث میں پانچ ناموں کا ذکر ہے،ام الکتاب نام کا ذکر بھی آیا ہے۔
(7) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس وقت تم الحمد پڑھو تو ﷽ پڑھ لو،اس لئے کہ یہ سورت ام القرآن اور ام الکتاب اور سبع مثانی ہے۔(دار قطنی،دارمی)۔
اس حدیث میں چار ناموں کا ذکر ہے جن میں ایک ام الکتاب ہے۔
(8) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یوں فرماتے سنا کہ ہر وہ نماز جس میں ام الکتاب نہ پڑھی جائے،وہ ناقص ہے۔(ا بن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلٰوۃ والسنۃ فیہا)
اُم الکتاب نام رکھنے کی وجوہات:
(1) ابو بکر جصاص حنفیؒ اپنی تفسیر احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ کتاب اللہ کی ابتداء اسی سورت سے ہوتی ہے اسلئے اسکو ام الکتاب کہتے ہیں۔
(2) ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ چونکہ تمام تر قرآن کے مضامین اجمالی طور پر اس سورت میں جمع ہیں اسلئے اس کا نام اُم الکتاب ہے اور پھر کہتے ہیں کہ عرب کی عادت ہے کہ ہر جامع کام اور کام کی جڑ کو جسکی شاخیں اور اجزاء اسی کے تابع ہوں،اُم کہتے ہیں۔
(3) سیوطیؒ نے الاتقان فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں کہ اسکو ام الکتاب کہتے ہیں کیونکہ:
(أ) مصاحف لکھنے کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔
(ب) نماز میں دوسری سورتوں سے قبل یہ سورت پڑھی جاتی ہے۔
(ت) ماوردیؒ کہتے ہیں کہ سب سورتیں اسکے بعد نازل ہوئے ہیں اور یہ سب سے مقدم ہے اسلئے اسکو اُم الکتاب کہتے ہیں۔
(ث) یہ تمام سورتوں سے افضل ہے اور جس طرح قوم کے سردار کو اُم القوم کہتے ہیں اسی طرح اسکو ام الکتاب کہتے ہیں۔
(ج) اس سورت کی عزت و اکرام تمام قرآن کی عزت و اکرام کے برابر ہے۔
(ح) یہ سورت اہل ایمان کی جائے پناہ اور واپسی میں جمع ہونے کی جگہ ہے ،جس طرح نشان فوج کو اُم اسلئے کہتے ہیں کہ فوج کے سپاہی اس کے زیرِسایہ پناہ بھی لیتے ہیں اور جمع بھی ہوتے ہیں،
(خ) یہ سورت محکم ہے اور محکم سورتوں کو قرآن کریم میں اُم الکتاب کہا گیا ہے۔
(د) علامہ آلوسیؒ نے بھی تفسیر روح المعانی میں تقریباَََ یہی وجوہات لکھے ہیں۔ان میں ایک وجہ یہ بھی لکھا ہے کہ تلاوت کی ابتداء اسی سے کی جاتی ہے اسلئے اسکو ام الکتاب کہتے ہیں۔
0 Comments