سورۃ فاتحہ کا پانچواں نام:: اُمُّ الْقُرْ اٰن |
امام قرطبیؒ اپنی تفسیر احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ ،حسن بصریؒ اور ابن سیرین نے اس نام میں بھی اختلاف کیا ہے اور ام الکتاب کی طرح اس نام کو بھی سورت فاتحہ کے لئے ناپسند کیا ہے۔(الاتقان)
بقول امام قرطبیؒ احادیث ثابتہ ان کے اقوال کی تردید کرتی ہیں،اسلئے جمہور نے اس نام کو سورت فاتحہ کے لئے جائز قرار دیا ہے۔صحیح احادیث سے اسکا یہ نام ثابت ہے،چند احادیث بطور نمونہ پیش کرتے ہیں
(1) ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،قَالَ قَالَ رسول اللہِﷺ :اَلحمدُ للہِ رب العٰلمین،سبعُ اٰیاتِ،﷽اِحداھُنَّ،وَ ھِیَ السبعُ المَثَانِی وَالقراٰ نُ العظیمُ وَھِیَ اُمُّ القراٰنِ وَ ھِیَ فَاتِحَۃُ الکِتَابِ۔
(آپﷺ نے فرمایا:الحمد للہ رب العلمین سات آیا ت ہیں،﷽ بھی ان میں سے ہے اور یہی سورت السبع المثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے اور یہی ام القرآن ہے اور یہی فاتحۃ الکتاب ہے۔)
حوالہ جات :: 1۔طبرانی الاوسط 2۔بیہقی 3۔تفسیر ابن مردُویہِ
الفاظ بیہقی کے ہیں اور ھیثمی ؒ نے مجمع الزوائد میں لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔
(2) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں،اَنَّہُ قَالَ لِاُمِّ القُراٰنِ"ھِیَ اُم القرآنِ وَ ھِیَ فَاتِحۃُ الکتابِ وَھِیَ السبع المثانی و ھی القراٰنُ العظیمُ
( رسول اللہﷺ نے ام القرآن کے بارے میں فرمایا کہ یہی ام القرآن ہے اور یہی فاتحۃ الکتاب ہے اور یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے۔)
حوالہ جات : 1۔مسند احمد 2۔تفسیر ابن جریر 3۔تفسیر ابنُ المُنذِر 4۔تفسیر ابنِ ابی حاتم
5۔تفسیر ابن مردُوَیہِ 6۔تفسیر دُرمنثور
محققین کہتے ہیں کہ اس حدیث کے اسناد شرط شیخین پر صحیح ہیں۔
(3) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اَلحَمدُ لِلہِ رَبِّ العٰلَمِین ام القرآن ہے اور ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے۔(ابوداود کتاب الصلٰوۃ)
اس حدیث میں چار ناموں کا ذکر ہے جن میں ایک نام ام القرآن بھی ہے۔
(4) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الحمد للہِ رب العٰلمین (پوری سورت)،یہی ام القرآن ہے اور ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم ہے۔(ترمذی)
اس حدیث میں پانچ ناموں کا ذکر ہے،ام القرآن نام کا ذکر بھی آیا ہے۔
(5) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس وقت تم الحمد پڑھو تو ﷽ پڑھ لو،اس لئے کہ یہ سورت ام القرآن اور ام الکتاب اور سبع مثانی ہے۔ (دار قطنی،دارمی)۔
(6) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے گی،جن میں نبی کریمﷺ نے ہمیں سنایاتھا ،ہم بھی تمھیں ان میں سنائیں گے ،اور جن میں آپﷺ نے آہستہ سے قراءت کی تھی،ہم بھی ان میں آہستہ سے قراءت کریں گے اور اگر اُم القرآن سے زیادہ نہ پڑھو،جب بھی کافی ہے لیکن اگر زیادہ پڑھ لو تو اور بہتر ہے۔ (بخاری،جلد 1،کتاب الاذان،باب القراٰۃ فی الفجر)
(7) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:" اس شخص کی نماز نہیں جسنے اُم القرآن نہ پڑھی"۔(مسلم شریف)
(8) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "جس نے نماز ادا کی اور اس میں اُم القرآننہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے،آپﷺ نے تین مرتبہ یہی فرمایا،اور ناتمام ہے۔ (مسلم،ابن ماجہ،نسائی)
(9) ابو سیعدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ عرب کے ایک قبیلہ میں گئے،انھوں نے ان کی میزبانی نہیں کی ۔کچھ دیر بعد اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا،اب قبیلہ والوں نے ان صحابہ سے کہا کہ آپ لوگو ں کے پاس دوا یا کوئی جھاڑنے والا ہے۔صحابہ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے ہمیں مہمان نہیں بنایا،اور اب ہم اس وقت تک نہیں جھاڑیں گے جب تک تم ہمارے لئے اس کی اجرت مقرر نہ کردو۔ چنانچہ ان لوگو ں چند بکریاں دینی منظور کر لیں۔(پھر خدری رضی اللہ عنہ اُم القرآن پڑھنے لگے۔اور اس پر دم کرتے رہے اور منہ کا تھوک بھی اس جگہ پر ڈالنے لگے،جیساکہ دم کرنے میں اکثر تھو ک کے چھینٹے بھی پڑ جاتے ہیں،اس سے وہ شخص اچھاہو گیا۔چنانچہ قبیلہ والے وہ بکریاں لے کر آئے،لیکن صحابہ نے کہا کہ جب تک ہم نبیﷺ سے پوچھ نہ لیں،یہ بکریاں نہیں لے سکتے۔پھر جب آپ ﷺ سے پوچھا تو آپﷺ مسکرائے اور فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہو گیاتھا کہ سورۃ فاتحہ سے جھاڑابھی جا سکتا ہے،اِن بکریوں کو لے لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگاو۔ (بخاری،ج3،کتاب الطب ،باب الرقی بفاتحۃ الکتاب)
(10) ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:جس شخص نے نماز پڑھی مگر اس میں اُم القرآن نہیں پڑھی تو اسکی نماز ناقص ہے،ناقص ہے،ناقص ہے،مکمل نہیں۔ (ابوداود)
(11) نافع بن محمود ربیع انصاری فرماتے ہیں کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے نماز فجر کے واسطے نکلنے میں تاخیر کی تو ابو نُعَیْم نے تکبیر کہہ کر نماز پڑھانا شروع کردی،اتنے میں عبادہ رضی اللہ عنہ بھی آگئے،میں بھی ان کے ساتھ تھا ،اور ہم نے ابو نُعَیْم کے پیچھے صف باندھ لی۔ابو نُعَیْم بآواز بلند قراءت کر رہے تھے،عبادہ نے اُم القرآن پڑھنی شروع کر دی۔ جب نماز پڑ چکے تو میں نے عبادہ سے پوچھا کہ میں نے آپ کو اُم القرآن پڑھتے ہوئے سنا ہےحالانکہ ابو نعیم بلند آواز سے قراءت کر رہے تھے،انھوں نے جواب دیا،ہاں کیونکہ رسول اللہﷺ نے ہمیں کوئی نماز پڑھائی جس میں آپﷺ بآواز بلند قراءت فرما رہے تھے،(مگر مقتدیوں کی قراءت کے سبب)آپﷺ کے لئے پڑھنا مشکل ہو گیا۔جب نماز ختم ہوگئی تو آپﷺ ہماری طرف متوجہ ہو ئے اور پوچھا،جب میں بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہوں تو کیا تم جب بھی (میرے پیچھے)قراءت کےتے ہو؟ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کہا:ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں،آپﷺ نے فرمایا:مت پڑھا کر،میں جبھی تو سوچ رہاتھا کہ مجھے کیا ہواہے؟ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مجھ سے قرآن چھینے لے جا رہا ہے،لہذا جب میں زور سے پڑھا کروں،تب تم سوائے اُم القرآن کے قران مت پڑھا کرو۔(ابو داود)
(12) جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:جس نے ایک رکعت پڑھی جس میں اُم القرآن نہیں پڑھی ،تو اس نے نماز نہیں پڑھی مگر امام کے پیچھے(نہیں پڑھنا چاہیئے)۔ (موطا امام مالکؒ)
(13) ابئی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعاٰ لیٰ نے نہ تورات اور نہ انجیل میں کوئی سورت ام القرآن جیسے نازل فرمائی اور یہی سبع مثانی ہے (اور ارشاد باری ہے کہ)یہ سورت میرے اور میرے بندہ کے درمیان تقسیم ہوئی ہے اور میرے بندہ کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے۔(نسائی)
(14) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کسی وقت کی نماز جہری کی امامت ہمیں فرمائی،پھر ارشاد فرمایا:جس وقت میں بلند آواز سے قراءت کروں تو کوئی شخص کچھ نہ پڑھے لیکن اُم القرآن۔(نسائی)
(15) ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا:جو نماز پڑھے جس میں ام القرآن نہ پڑھے ،پس وہ ناقص ہے،وہ ناقص ہے،وہ ناقص ہے،نامکمل ہے۔ (موطا امام مالکؒ)
(16) نافع ؒ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو چاروں رکعتوں میں اُم القرآن اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی دو دو تین سورتیں ایک ایک رکعت میں پڑھتے تھے فرض کی نماز میں اور مغرب کی نماز میں دو رکعتوں میں اُم القرآن اور سورت پڑھتے تھے۔(موطا امام مالکؒ)
(17) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص اُم القرآن نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔(سنن دارمیؒ)
(18) ابو عبداللہ صُنابِحِی سے روایت ہے کہ میں مدینہ میں آیا،جب ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے،تو میں نے ان کے پیچھے مغرب کی نماز پڑھی تو پہلی دو رکعتوں میں اُم القرآن اور ایک سورت مفصل کی چھوٹی سورتوں میں سے پڑھی(حنفی مسلک کے مطابق سورۃ الحجرات سے آخر قرآن تک کے سورتوں کو مفصلات کہتے ہیں)،پھر جب تیسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے تو میں اُن کے نزدیک ہوگیا،یہاں تک کہ میرے کپڑے قریب تھے کہ چھو جائے ان کے کپڑوں سے تو میں نے سنا،انھوں نے اُم القرآن اور یہ آیت پڑھی رَبَّناَ لاَ تُزِغْ قُلُوْبَناَ الخ(موءطا امام مالکؒ)
(19) محمد بن خلاَّد اسکندرانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اُم القرآن دوسری
تمام سورتوں کا بدل ہے جبکہ دوسری سورتیں اسکا بدل نہیں۔(دارِ قطنی)
(20) محمود بن الربیعؒ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا: اُم القرآن دوسری سورتوں کا عوض ہے اور دوسری کوئی سورت اسکا
عوض نہیں۔(تفسیر کبیر لامام الرازیؒ)
0 Comments