فاتحۃ الکتاب نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے |
سورت فاتحہ کا دوسرا نام : فاتحۃ الکتاب
سورۃ فاتحہ کا دوسرا مشہور نام سورہ فاتحۃ الکتاب ہے۔یہ نام صحییح احادیث سے ثابت ہے۔نیچے حوالے دیئے گئے ہیں۔
(1)ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،قَالَ قَالَ رسول اللہِﷺ :اَلحمدُ للہِ رب العٰلمین،سبعُ اٰیاتِ،﷽
اِحداھُنَّ،وَ ھِیَ السبعُ المَثَانِی وَالقراٰ نُ العظیمُ وَھِیَ اُمُّ القراٰنِ وَ ھِیَ فَاتِحَۃُ الکِتَابِ۔
(آپﷺ نے فرمایا:الحمد للہ رب العلمین سات آیا ت ہیں،﷽ بھی ان میں سے ہے اور یہی سورت السبع المثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے اور یہی ام القرآن ہے اور یہی فاتحۃ الکتاب ہے۔)
حوالہ جات :: 1۔طبرانی الاوسط 2۔بیہقی 3۔تفسیر ابن مردُویہِ
الفاظ بیہقی کے ہیں اور ھیثمی ؒ نے مجمع الزوائد میں لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔
(2) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں،اَنَّہُ قَالَ لِاُمِّ القُراٰنِ"ھِیَ اُم القرآنِ وَ ھِیَ فَاتِحۃُالکتابِ وَھِیَ السبع المثانی و ھی القراٰنُ العظیمُ
( آپ ﷺ نے ام القرآن کے بارے میں فرمایا:یہی ام القرآن ہے اور یہی فاتحۃ الکتاب ہے اور یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے۔)
حوالہ جات : 1۔مسند احمد 2۔تفسیر ابن جریر 3۔تفسیر ابنُ المُنذِر 4۔تفسیر ابنِ ابی حاتم
5۔تفسیر ابن مردُوَیہِ 6۔تفسیر دُرمنثور
محققین کہتے ہیں کہ اس حدیث کے اسناد شرط شیخین پر صحیح ہیں۔
(3)انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِنَّ اللہَ اَعطَانی فِیماَ مَنَّ بِہِ عَلَیَّ فَاتِحَۃُ الکتاب و ھی کنزٌ مِّنْ کُنُوزِ عَرشِی۔
(اللہ تعالٰی نے جو احسان فرما کر مجھے انعام دیئے ہیں،ان میں سے ایک فاتحۃ الکتاب بھی ہے اوراللہ تعالٰی نے مجھ سے فرمایا کہ یہ میرے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔)
حوالہ جات : 1۔بیہقی 2۔ابنِ الضُّرَیْس فی فضائل القراٰن 3۔الاتقان 4۔درمنثور
(1) امام حاکم نے ابئی بن کعب سے روایت کیا ہے ،فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایاکہ تمہیں ایک ایسی سورت نہ سکھاوں کہ اس جیسی سورت نہ تورات ،نہ انجیل اور نہ فرقان میں اتری ہے،میں نے کہا۔کیوں نا،(ضرور سکھایئے)۔آپ ﷺ نے فرمایا:مجھے امید ہے کہ مسجد کے دروازہ سے نکلنے سے پہلے تمہیں یاد ہوا ہوگا۔پس رسول اللہﷺ اٹھ گئے اور میں بھی آپﷺ کے ساتھ اٹھا۔آپ ﷺ مجھ سے باتیں کرنے لگیں اور میرا ہاتھ آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک میں تھا۔میں اس خوف سے آہستہ آہستہ چلنے لگا کہ کہیں مجھے خبر دینے سے پہلے آپ ﷺ نہ نکلے۔جب میں دروازے کے قریب پہنچا،تو میں نے کہا:یا رسول اللہ وہ سورت جس کا آپﷺ نے مجھ سےوعدہ فرمایاتھا۔آپﷺ نے فرمایا:جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے ہو تو کیا پڑھتے ہو؟ میں نے فاتحۃ الکتاب پڑھی۔آپﷺ نے فرمایا:یہی وہ سورت ہے اور یہی وہ سبع مثانی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:وَ لَقَد اٰتَینٰکَ سَبعاََ مِّن المَثَانِی وَ القُراٰنَ العَظِیمِ، وہ جومجھے عطا کیاگیا۔(اس روایت میں بھی فاتحۃ الکتاب نام آیا ہے۔
حوالہ: مستدرک حاکم،ج1،کتاب فضائل القرآن حدیث نمبر 2100
(2) عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاَ صَلٰوۃَ لِمَن لَّمْ یَقرَ ء بِفَاتِحَۃِ الکِتاَب (اس شخص کی نماز نہیں جس نے فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی)
اس حدیث کو صحاح ستہ نے روایت کیا ہے۔اس میں بھی فاتحۃ الکتاب نام آیاہے۔
(3) ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن صَلّٰی صَلٰوۃََ لَم یَقرَء فِیھَا بِفَاتِحَۃِ الکتابِ فَھِیَ خِدَاج ٌ
(جس نے نماز ادا کی اور اس میں سورت فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے،تین بار دھرایا)۔(مسلم)
(4) عمروبن العاص رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر وہ نماز جس میں فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی جائے تو وہ نماز ناقص ہے،وہ نماز ناقص ہے۔(ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلٰوۃ والسنۃ)
(5) عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ہر وہ نماز جس میں فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی جائے تو وہ نماز ناقص ہے،وہ نماز ناقص ہے۔(ابن ماجہ)
(6) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں فاتحۃ الکتاب اور(ایک) سورت پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں (صرف) فاتحۃ الکتاب پڑھتے تھے۔(ابن ماجہ)
(10)ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحۃ الکتاب اور دو مزید سورتیں پڑھتے تھے،ان میں طویل قرآت کرتے تھے،لیکن آخری رکعتیں ہلکی پڑھاتے تھے۔کھبی کھبی آیت سنا بھی دیا کرتے تھے۔عصر میں فاتحۃ الکتاب اور مزید دو سورتیں پڑھتے تھے ،اس کی بھی پہلی رکعتیں طویل پڑھتے تھے۔اسی طرح صبح کی نماز کی پہلی رکعت طویل کرتے اور دوسری ہلکی۔(بخاری)
(11)عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہایک فرشتہ نے آسمان سے آکر آپ ﷺ کو سلام کیا اور کہا: آپ ﷺ کو ان دو نوروں کی خوشخبری ہو جو آپﷺ کو دئیے گئے،آپ ﷺ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے،ایک فاتحۃ الکتاب اور دوسرے سورہ البقرہ کی آخری آیات،آپ ان میں سے جو بھی حرف پڑھیں گے ،آپ کو اس کے مطابق دیا جائے گا۔(مسلم)
(12) ثعلبی ؒ نے اپنی اسناد سے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ :فاتحۃ الکتاب مکہ میں عرش کے نیچے خزانوں سے نازل ہوئی ہے۔(تفسیر ثعلبی اور تفسیر کبیر)
ان روایات کے علاوہ بہت سارے احادیث اور اٰثار میں سورت فاتحہ کا نام فاتحۃ الکتاب آیا ہے۔
اب اس نام کے وجوہات لکھتے ہیں کہ اس کو فاتحۃ الکتاب کیوں کہتے ہیں:
(1) امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ لفظاََ اس سورت کے ساتھ قرآن کریم کی قرآت اور خطاََ مصحف میں اس کے ساتھ کتابت کا آغاز کیا جاتا ہے،اسلئے اس کو فاتحۃ الکتاب کہتے ہیں۔
(2) نماز میں قرآت اسی سے شروع ہوتی ہے ،اسلئے اس کو فاتحۃ الکتاب کہتے ہیں۔
(3) قاموس میں ہے کہ : فَاتِحَۃُ کُلِّ شَیءِِ اَوَّ لُہٗ(ہر چیز کے اول کو فاتحہ کہتے ہیں۔چونکہ یہ قرآن کریم کی اول سورت ہے اسلئے اسکو فاتحۃ الکتاب کہتے ہیں۔
(4) ہر چیز کے مبداء کو الفاتحہ کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اس کے ما بعد کو شروع کیا جاتا ہے،چونکہ یہ سورت قرآن کریم کی مبداء ہے ،اسلئے اس کو فاتحۃ الکتاب کہتے ہیں۔
0 Comments